Advertisement

عباسی خلافت کی تاریخ

عباسی کہاں سے تعلق رکھتے تھے؟

عباسیوں کاتعلق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چچا حضرت العباس کے خاندان سے تھا۔ اسی حسب نسب کی بنا پر ، امویوں کے برعکس، وہ زیادہ تقدس کا دعوی کرتے تھے۔ اس کے باوجود ابتدائی عباسیوں کو محبان علی کی وقتاً فوقتاً بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا جو خود کو خلافت کا زیادہ حقدار خیال کرتے تھے۔ عباسیوں نے خلافت سنبھالنے کے بعد اپنے دفاع کی خاطر جلدی پرشکوہ القاب اپنانے شروع کر دیے۔ یہ کام امویوں نے بھی کیا تھا۔ ان القابات میں خدا پر انحصار اور عباسی حکمرانوں پر خدا کی نظر کرم کا دعوی کیا گیا۔ عباسی حاکمیت کی تھیوکریٹک نوعیت دوسرے طریقوں سے واضح ہوئی اور ہر مذہبی ادارے کو ہرمکن حد تک سلطنت کا حامی بنا دیا گیا۔ ممکن ہے کہ یہ رجحانات پرانے فارسی مذہبی اور سیاسی تصورات کے مرہون منت ہوں کیونکہ عباسیوں کو برسراقتدار لانے والے ابو مسلم کا انقلاب بنیادی طور پر فارسی ماخذ رکھتا تھا۔ دارالخلافہ کی دمسق سے بغداد منتقلی مشرق کی جانب نئے جھکاؤ کی عکاس ہے۔

عباسی خلافت کی تاریخ
عباسی خلافت 

اموی  دور میں عباسی سلطنت

اموی دور میں اسلامی سلطنت حقیقی معنوں میں انتہائی حدود تک پہنچی اور عباسی عہد میں بھی سرحدی جوں کی توں قائم رہیں۔ بس چند ایک خلفاء نے ہی عملی سپاہی ہونے کا امتیاز حاصل کیا...الامون اور معتصم نے اناطولیہ میں بازنطینیوں کے خلاف کامیاب فوجی مہم جوئی کی تھی۔ اور نویں اور دسویں صدیوں میں یہ مسلمان ہی تھے جنہیں پرجوش مقدونیائی شہنشاہوں کے سامنے دفاعی انداز اختیار کرنا پڑا۔

عباسی سلطنت کا زوال

نویں صدی میں ہی خلافت کا سیاسی اتحاد زوال پزیر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ امویوں کی ایک شاخ پوری خودمختاری کے ساتھ چین  پر حکومت کر رہی تھی اور بحیثیت مجموعی شمالی افریقہ اس قدر دور تھا کہ اس کا موزوں طریقے سے انتظام نہیں چلایا جاسکتا تھا۔ مصر میں طولونی خودمختاری اختیار کیے ہوئے تھے۔ جبکہ فارس میں طاہری گورنروں کے بعد سامانیوں اور صفیوں جیسی مقامی ایرانی سلطنتیں آئیں، جنھوں نے بغداد کو کچھ اخراج تو ادا کیا لیکن بصورت دیگر انہیں یہونہی چھوڑ دیا گیا۔ عباسیوں کی موثر سیاسی طاقت عراق تک محدود ہوکر رہ گئی۔  سب سے بڑھ کر دسویں صدی میں، جب سیاسی شیعیت نے اسلامی دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حاصل فتح کرلی۔ فاطمیوں نے قاہرہ کے خلفا سے دشمنی کا اعلان کرتے ہوئے پہلے شمالی افریقہ اور اس کے بعد مصر وشام پر قبضہ کرلیا۔ عراق اور فارس میں دیلمی بیوئی مسند اقتدار تک پہنچے، 334/ 945میں بغداد میں داخل ہوئے اور خلفا کو کٹھ پتلیاں بنا کر رکھ دیا۔ ان کے پاس اپنے اخلاقی اور روحانی اثرورسوخ کے سوا کچھ بھی نہ رہا۔

ترکی سلجوقوں کا ظہور

 447 / 1055 میں ترکی سلجوقوں کے ظہور نے خلفا کو اس فرقہ پرستانہ مذہبی دباؤ سے نجات دلائی۔ وہ خود سنی ہونے کے باوجود خلفاء کی سیاسی طاقت بحال کرنے کے حق میں نہ تھے۔ بارھویں صدی میں ہی آ کر جب عظیم سلجوق اپنے اتحادویگانگت سے محروم ہوئے تو المکفی اور الناصر جیسے باصلاحیت خلفاء کی سرکردگی میں عباسیوں کی تقدیر بدلنے لگی۔

عباسی سلطنت کا خاتمہ کس نے کیا تھا؟

 بدقسمتی سے منگول تباہ کاریوں کی وجہ سے یہ بحالی کا عمل منقطع ہو گیا، اور 565 / 1258 میں ہولیگو نے بغداد کے آخری خلیفہ کا خون کردیا۔

عباسی حکومت کی پہلی تین صدیاں

 عباسی حکومت کی پہلی تین صدیوں قرون وسطی کی اسلامی تہذیب کی مکمل افزائش دیکھی۔ ادب، الہیات، فلسفہ اور فطری علوم کے میدان میں ترقی ہوئی، اور فارس و ہیلینیائی دنیا سے آنے والے اثرات انھیں زرخیز بناتے رہے۔ معاشی اور تجارتی ترقی کا دائرہ بہت وسیع تھا، سب سے بڑھ کر فارس اور عراق، مصر کے نسبتاً پرانے اور عرصہ سے آباد علاقوں میں؛ اور ایشیائی یورپی ڈھلانوں، مشرق بعید، ہندوستان اور افریقہ جیسے بیرونی علاقوں کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار ہوئے۔ دسویں صدی کی سیاسی ناکامی اور عدم تحفظ کے باوجود مادی اور ثقافتی شعبوں میں یہ ترقی جاری رہی۔ گیارہویں صدی اور بعد کی ترک سلطنتی اسلام کے ثقافتی وجود میں شامل ہوتی گئیں۔ اسلام کے شدید دشمنوں منگولوں نے ہی اس وجود کو بگاڑا۔ یوں خلافت بغداد کا خاتمہ منگولوں کے ہاتھوں ہوا، لیکن جلد ہی مصر کے مملوک سلطان بیبرس نے خلیفہ بنے کا فیصلہ کیا اور بغداد کے آخری عباسی کے چچا (جو قتل عام میں بچ جانے والے شاہی افراد میں سے ایک تھا) کو قاہرہ آنے کی دعوت دی ( 659/ 1261 )۔ اس خلیفہ نے ایک فوج تیار کی اور بغداد کو فتح کرنے کی ایک ناکام کوشش کی ۔ وہ اس کوشش میں جان  سے  ہاتھ  دھو  بیٹھا  اور  اگلے برس ایک اور عباسی تخت نشین ہوا۔ خلیفہ کے قاہرہ میں قیام نے ملوک حکومت کو جائز بنانے میں کردار ادا کیا، اور صلیبیوں اور منگولوں کے خلاف جنگ میں ایک اخلاقی ہتھیار تھا۔ مزید برآں خلفا نے، جیسا کہ بغداد میں ہوا تھا، فتوے جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن مملوک ریاستوں میں ان کا کوئی عملی اختیار نہ تھا، اور یقینا سلاطین کے ساتھ اختیارات کی تقسیم کا کوئی تصور موجودنہ تھا۔

آخری خلیفہ المتوکل سوم کو سلیم 923 میں استنبول لے گیا۔ لیکن یہ کہانی محض انیسویں صدی میں تراشا گیا ایک فسانہ ہے کہ تب اس نے خلافت پر اپنے حقوق عثمانی سلاطین کو منتقل کر دیے۔

Post a Comment

0 Comments